Friday, April 1, 2016

النمر کی موت اور مشرق وسطﻰ میں بھڑکتی ہوئی آگ !


 
النمر کی موت اور مشرق وسطﻰ میں بھڑکتی ہوئی آگ   !
                                شفیق شاکر                                                        
گذشتہ طویل عرصے سے مشرق وسطﻰ میں پھیلی ہوئی سیاسی بیچینی  اور مختلف ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا ماحول دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔لیکن اس آگ کو بجھانے کے لئے نہ تو  خود وہاں کے حکمران سنجیدہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی عالمی برادری کو اس معاملے پر کوئی زیادہ تشویش ہے۔پڑوسی مسلم ممالک تو بلکل ہی لاتعلق بنے نظر آتے ہیں۔یمن میں ایک ہی وقت ہونے والی سعودی فوجی کاروائیوں، حکومت کے خلاف جاری باغی حملوں اور داعش کی دہشتگرد  کاروائیوں نے مل کر وہاں کے عوام کا سکھ چین لوٹ لیا ہے،یہی حال شام،لبنان اور عراق کا  ہے۔سعودی  عرب اور عراق کی تازہ کشیدگی نے اس پر جلتی پر تیل کا کام دکھایا ہے۔یہ کشیدگی اس  وقت مزید سنگین ہوگئی جب ایک شیعہ لیڈر آیت اﷲ النمرکو دہشتگردی کے مقدمے میں سعودی عرب میں  47 دوسرے لوگوں سمیت  موت کی سزا دے دی گئی۔جس کے ردعمل میں ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود سفارتخانے کو احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے نذر آتش کردیا۔جس کے بعد سعودی  حکومت نے ایران کے ساتھ اپنے تمام سفارتی تعلقات معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے  ایرانی سفیر کو   فی الفور سعودی عرب چھوڑ جانے کا الٹیمیٹم دےدیا۔
النمر سعودی عرب کے مشرقی ضلع  قطیف کے ایک  گاؤں میں 1960ع پیدا  ہوئے تھے،وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں زیادہ عرصہ شام اور ایران میں گذارنے کے بعد 1994 کو سعودی عرب واپس آئے تھے۔ جیساکہ اس وقت سعودی عرب کی اقلیتی شیعہ مسلم آبادی میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ سعودی حکومت مسلک کے بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے اور ان کو ان کے مذہبی حقوق نہیں دیے جارہے۔النمر  جب واپس سعودی عرب لوٹے تو انہوں نے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر سعودی حکومت کی ان پالیسیوں پر کھلی تنقید کی اور پابندیوں کے باوجود احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تقاریر  کیں  جس کی وجہ سے وہ سعودی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور ان کو 2004 اور 2006 میں بھی گرفتار کیا گیاتھا پر چھوڑدیا گیا ۔2012ع میں  عرب  حکمرانوں کے خلاف  بغاوتوں کی آئی ہوئی زبردست لہر میں جب بہت سے مظبوط حکمران تنکوں کی طرح بہہ گئے تو سعودی حکمرانوں نے اس آگ کو اپنی حدوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ان باغیوں کے خلاف بڑا آپریشن کرکے ان کو کچل دیا۔لیکن النمر شاہی خاندان کے لئے بڑا خطرہ بنا رہا۔آخرکار اسے 2012ع میں گرفتار کرکے دہشت گردی کے مقدمات کے تحت  موت کی سزا سنادی گئی۔جب اس کا ٹرائیل ہورہا تھا اس وقت بھی بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کاروائی پر سوالیہ نشان کھڑا کیا تھا بہر حال اسے سزا دے دی گئی جس کے بعد ایران، بحرین اور دوسرے ممالک میں اس سزا کے خلاف  مظاہرے شروع ہوگئے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سعودی حکومت نے سماجی شعبے میں اپنے لوگوں کے لئے بڑا کام کیا ہے لیکن اپنے شاہی مسلک کے علاوہ کوئی اور مسلک رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ  امتیازی سلوک،عراق جنگ اور معاملہ فلسطین،غیرملکیوں کو اپنے ملک میں فوجی اڈے مہیا کرنے اور اس وقت شام اور یمن میں اس کے فوجی کردار کی وجہ سے سعودی شاہی حکمران اس خطے کے مسلمان نوجوانوں کے سخت غصے، تنقید اور ناراضگی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔دوسری طرف  انسانی حقوق اور اظہار رائے  کی پابندیوں کے حوالے سے بھی سعودی عرب کو عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سےشدید مخالفت کا سامنا ہے۔ان حالات میں سعودی حکمراں اپنے آپ کو کافی غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں۔اگر تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کے اپنے زیادہ تر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے۔عربوں کے بعد اس علاقے میں اس کا سب سے بڑا حریف ایران رہا ہے اور دوسرے ممالک کی نسبت سعودی عرب نے ہمیشہ ایران کو ہی اپنے لئے اصل خطرہ سمجھا ہے۔انقلاب ایران سے پہلے شہنشاہ  رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران کے مغربی ممالک خاص طور امریکا کے ساتھ مضبوط سیاسی،اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم تھے اور ایک لحاظ سے ایران کو اس خطے میں واضح برتری حاصل تھی۔مغربی ممالک نے خطے کی جگرافیائی اور دفائی صورتحال کی حساسیت ،نزاکت اور اہمیت کو نظر میں رکھتےہوئے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے یہ پالیسی اختیار کی تھی لیکن انقلاب ایرن کے بعد ایران کے تعلقات مغربی ممالک سے منقطع ہونے پر طاقت کا پورا توازن اکیلے سعودی عرب کے پلڑے میں چلاگیا جس کی وجہ سے وہ مشرق وسطى کا سپر پاور بن گیا اور اس نے اپنے پڑوسی ممالک میں بھی اپنے مسلک اور اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں اور ان ممالک میں مداخلت کرنا شروع کردی۔جس کے نتیجے میں ان ممالک کے عوام خاص طور پر شیعہ آبادی والے علاقوں میں سعودی حکمرانوں کے خلاف غصے اور نفرت میں اضافہ ہوا  ہے۔دوسری طرف سعودی عرب ایران کو اپنے  بڑھتے ہوئے   دائرہ اثر کی راہ میں اکیلی رکاوٹ سمجھتے ہوئے  ہر طرح سے ایران کا گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کرتا رہا  ہے۔کچھ عرصہ پہلےمغربی ممالک اور ایران کے مابین ایٹمی معاملے پر معاہدہ  سعودی حکومت کی خواہشات کے برعکس تھا۔اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عائد پابندیوں کا اختتام بھی سعودی حکومت  کے لئے تشویش کا باعث  بنا ہوا ہے۔سعودی حکومت ایران پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ ایران  یمن میں حوثی باغیوں اور شام و لبنان میں حزب اﷲ جیسی دہشتگرد تنظیموں کی سپورٹ کرتا رہا ہے۔جبکہ ایران یہ الزام لگاتا ہے کہ سعودی عرب دوسرے ممالک میں قائم جائز حکومتوں کو گرانے کے لئے داعش جیسی دہشتگرد تنظیموں کی مدد کر رہا ہے۔جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران دونوں اس خطے میں اپنے اپنے اختیار اور اقتدار بڑھانے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جس کے نتیجے میں خطے کے اکثر ممالک میں انارکی،سیاسی بے چینی اور خانہ جنگی بھیانک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔جس کا سنجیدگی سے کوئی تدارک نہ سوچا گیا تو یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے رمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کی ایک وجہ سعودی قیادت میں بننے والا مسلم ممالک کا حالیہ فوجی اتحاد بھی ہے۔جو ایران کے نقطہ نظر کے مطابق دہشتگردی کے خلاف نہیں بلکہ ایران،شام،عراق اور یمن کے خلاف کاروائی کرنے کے بنایا گیا ہےاس لئے جان بوجھ کر ان ممالک کو اس اتحاد سے باہر رکھا گیا ہے۔آج جن ممالک میں یہ جنگی کیفیت چھائی ہوئی ہے کل وہ دوسرے ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔امریکی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا دونوں ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اس معاملے کو ٹھنڈا  کرنے کی کوشش کریں۔لیکن معاملہ اتنی آسانی سے ٹھنڈا ہوتے ہوئے دکھائی نہیں  دے رہا اور محسوس ہو رہا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ معاملہ اور بھی بگڑے گا اور لگ رہا ہے کہ حالات سب کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ ان ممالک کی عوام  ایک طرف تو اپنے ہی حکمرانوں کے مظالم  کی شکار بنی ہوئی ہے،دوسرے طرف ان حکمرانوں کے خلاف چلنے والی باغی تحریکوں کے پیدا کردہ فسادات میں لہو لہاں ہو رہی ہے تو تیسرے طرف داعش کی دہشتگردانہ کاروائیوں کا بھی نشانہ بن رہی ہےلیکن وہاں کے حکمران اپنی طاقت اور اختیار بچانے کی ہوس میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو سڑکوں پر پڑے معصوم اور مظلوم  شہریوں کے لہولہان لاش نظر نہیں آتے اور نہ انہیں بے بس عورتوں اوربچوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔

پاکستان اور دوسرے ملکوں کی یہ بنیادی اور اخلاقی ذمیداری بنتی ہے کہ وہ اس قسم کے بنائے گئے فوجی اتحادوں میں شمولیت کرکے اس  کھیل میں فریق  بن کر وہاں کی عوام کی نفرت اور غصے اور تمام رد عمل کا رخ اپنے طرف موڑنے کے بجائے خلوص دل سے ان ممالک کو ایک ٹیبل پر لانے کے لئے موثر سیاسی اور سفارتی کردار ادا کریں تاکہ دنیا کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ  کی لپیٹ میں آنے سے بچایا جا سکے۔

No comments:

جيڪڏهن ممڪن هجي ته پنهنجو تبصرو موڪليو

اهم اطلاع :- غير متعلق، غير اخلاقي ۽ ذاتيارت تي مشتمل تبصرن کان پرهيز ڪريو. انتظاميه اهڙي تبصري کي ختم ڪرڻ جو حق رکي ٿي. هوئن به خيالن جو متفق هجڻ ضروري ناهي.۔ جيڪڏهن توهان جي ڪمپيوٽر ۾ سنڌي ڪيبورڊ انسٽال ٿيل ناهي ته سنڌي ۾ تبصرو لکڻ لاءِ هيٺين خاني ۾ سنڌي لکي ڪاپي ڪريو ۽ تبصري واري خاني ۾ پيسٽ ڪري پبلش بٽڻ تي ڪلڪ ڪريو.۔
تبصرو موڪليو

پنهن جي راء هتي لکو